۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
امام حسین (ع) کا معاویہ کے نام خط

حوزہ/ معاویہ نے اعلان کیا تھا کہ جو شخص بھی اہل بیت علیہم السلام کی مدح میں کوئی حدیث بیان کرے گا اس کی جان ومال محفوظ نہیں ہیں اور جو شخص تمام اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف میں کوئی حدیث بیان کرے گا اسے بہت زیادہ انعام و اکرام دیا جائےگا۔

تحریر: مولانا محمد لطیف مطہری کچوروی

حوزہ نیوز ایجنسیمعاویہ خلفائے ثلاثہ کی طرح ظاہری طور پر امام حسین علیہ السلام کے لئے غیرمعمولی احترام کا قائل تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ امام حسین علیہ السلام مکہ اور مدینہ کے عوام کے یہاں بہت زیادہ ہر دلعزیز ہیں اور آپ کے ساتھ عام افراد جیسا رویہ نہيں اپنایا جاسکتا۔ معاویہ کو ہر وقت آپ کے قیام کا خوف رہتا تھا۔ چنانچہ اس نے امام کے سامنے قبض و بسط کی پالیسی اپنائی یعنی  ایک طرف سے آپ کی منزلت کو مد نظر رکھتا تھا اور بظاہر آپ کے لئے احترام کا قائل تھا اور آپ کی تعظیم کرتا تھا اور اپنے کارگزاروں کو بھی ہدایت کرتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند کو نہ چھیڑیں اور ان کی بےحرمتی سے پرہیز کریں۔دوسری طرف سے امام کی مسلسل اور شب و روز نگرانی کو اپنی پالیسی کا حصہ بنایا اور سفر اور حضر میں آپ کی تمام حرکات و سکنات پر کڑی نظر رکھی جاتی تھی۔ اس نے حتی امام حسین علیہ اسلام کی عظمت اور معاشرتی منزلت کے پیش نظر اپنے بیٹے یزید کو بھی سفارش کی تھی کہ امام کے ساتھ رواداری سے پیش آئے اور آپ سے بیعت لینے کی کوشش نہ کرے۔
۵۰ ہجری میں امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام حسین علیہ السلام منصب امامت پر فائز ہوئے اگرچہ آپ ؑنےاپنے بھائی کی طرح معاویہ کے خلاف قیام نہیں کیا لیکن وقتا فوقتا حقایق کو برملا کرتے تھے اور معاویہ اور اس کے عمال کے مظالم اور مفاسد کو لوگوں کے سامنے عیاں کرتے تھے ۔چنانچہ  جب معاویہ نے  آ پؑ کو اپنی مخالفت سے روکا تو آپ ؑنے مندرجہ ذیل نکات پر مشتمل ایک خط معاویہ کولکھا  جس میں اس کی سختی سے مذمت کی۔
۱۔تم حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کے قاتل ہو جو سب کے سب عابد وزاہد تھےاور بدعتوں کے مخالف اور امر بالمعروف و نہی عن المنکرکیاکرتے تھے ۔
۲۔ تم نے عمرو بن حمق کو قتل کیا جو جلیل القدر صحابی تھے جن کابدن کثرت عبادت کی وجہ سے نحیف و کمزور ہو چکا تھا۔۱۔
۳۔تم نے زیاد بن ابیہ کو { جو ناجائز طریقے سے متولد ہوا تھا }اپنا بھائی بنا لیا اوراسےمسلمانوں پرمسلط کردیا ۔
( زیاد ابو سفیان کے نطفہ سے ناجائز طریقے سے پیدا ہوا تھا اس کی ماں بنی عجلان کی ایک کنیز تھی اور ابو سفیان نے ناجائز طریقے سے اس کے ساتھ ہمبستری کی جس سے زیاد پیدا ہوا حالانکہ اسلام کا حکم یہ تھا کہالولد للفراش و للعاهر الحجر) ۲۔
۴۔ تم نے عبد اللہ بن یحیی حضرمی کو اس جرم میں شہید کیا کہ وہ علی ابن طالب علیہ السلام کے دین و مذہب ہر عمل کرتا تھا۔کیا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا دین و مذہب پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکا دین و مذہب نہیں تھا وہی  دین جس کے نام پر تم لوگوں پر حکومت کر رہے ہو ۔
5۔تم نے مجھے مسلمانوں کے درمیان فتنہ انگیزی سے روکا ہے لیکن میری نظر میں مسلمانوں کے لئے تیری حکومت سے زیادہ بدتر اور کوئی فتنہ نہیں ہے ۔اور میں تم سے جہاد کرنے کو بہترین عمل سمجھتا ہوں۔۳۔
ابن ابی الحدید( الاحداث) میں ابو الحسن مدائنی سے نقل کرتے ہیں : معاویہ نے حکومت سنبھالتے ہی اپنے عمال کو جو مختلف علاقوں میں رہتےتھے حکم دیا کہ شیعوں کے ساتھ نہایت سخت سلوک کیاجائے ۔ اور ان کے نام کو کو دیوان سے حذف کیا جائے اور بیت المال سے انہیں کچھ نہ دیا جائےاور انہیں سخت سزا دی جائے ۔ معاویہ کے اس حکم کی بنا پر شیعوں کےلئے زندگی گزارنا خاص طور پر کوفہ میں سخت ہو گیاتھاکیونکہ معاویہ اور اس کے افراد کی جاسوسی کے خوف سے ہر طرف نا امنی پھیل چکی تھی یہاں تک کہ افراد اپنے خدمتگاروں پر بھی بھروسہ نہیں کرتےتھے ۔اس نے علی ابن ابی طالب علیہ السلامکے فضائل و مناقب پر پابندی لگانےکے ساتھ عثمان کے فضائل و مناقب کو زیا دہ سے زیادہ بیان کرنے اور ان کے چاہنے والوں کے ساتھ  عزت واحترام سے پیش آنے کا حکم دیا یہاں تک کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے مقابلے میں سابقہ خلفاء کے فضائل میں حدیث گھڑنے اور نشر کرنے کا حکم دیا تاکہ علی ابن ابی طالب کی شخصیت اور شہرت کم ہو جائے   لیکن اس کے برعکس  اس قسم کے دستورات سے اسلامی معاشرے میں حدیث گھڑنے کا رواج عام ہو گیا ۔
حضرت علی علیہ السلاماس سے پہلے سے ہی باخبرکرچکے تھے۔ آپ ّنے فرمایا تھا :(اما انه سیظهر علیکم بعدی رجل رحب البلعوم ، مندحق البطن  .... الا و انه سیامرکم بسبی و البرءة منی ....)۴۔ میرے بعد جلد ہی تم پر ایک ایسا شخص مسلط ہو گا جس کا حلق گشادہ اور پیٹ بڑا ہوگا ۔جو پائے گا نگل جائےگا اور جو نہ پائے گا اس کی اسےکھوج  لگی رہے گی {بہتر تو یہ ہے }تم اسے قتل کرڈالنا لیکن یہ معلوم ہے کہ تم اسے ہر گز قتل نہ کروگے وہ تمہیں حکم دے گا کہ مجھے برا کہو اور مجھ سے بیزاری کا اظہار کرو۔جہاں تک برا کہنے کا تعلق ہے  ،مجھے برا کہہ لینا اسلئے کہ یہ میرے لئے پاکیزگی کا سبب اور تمہارے لئے {دشمنوں سے}نجات پانے کا باعث ہے لیکن {دل سے} بیزاری اختیار نہ کرنا اس لئے کہ میں دین فطرت پر پیدا ہوا ہوں اور ایمان و ہجرت میں سبقت رکھتا ہوں۔
آپؑ نے اس خطبہ میں جس شخص کی طرف اشارہ کیا ہے اس کے بارے میں بعض نے زیاد بن ابیہ اور بعض نے حجاج بن یوسف اور بعض نے معاویہ کوکہا ہے ۔ابن ابی الحدید  نےآخری شخص کو مصداق قرار دیتےہوئے معاویہ کے حضرت علی علیہ السلام کو لعن کرنے کے بارے میں  تفصیل سے لکھا ہے  ۔ اس کے بعد وہ ان محدثوں اور راویوں کا ذکر کرتا ہے جنہیں معاویہ نے امیر المومنین علیہ السلام کی  خلاف احادیث گھڑنے کے لئےدرہم و دیناردیاتھا ۔جن میں سے ایک سمرۃ بن جندب تھا جسے ایک لاکھ درہم دیا گیا تھاتاکہ وہ یہ کہے کہ یہ آیت (و من الناس من یعجبک قوله فی الحیاة .)حضرت علیعلیہ السلام کی شان میں اور یہ آیت  ( و من الناس من یشری نفسه ابتغاء مرضات الله ..)ابن ملجم کی شان میں نازل ہوئی ہے۔۵۔

مفسرین کے بقول پہلی آیت اخنس بن شریق کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو ظاہرہی طورپرپیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محبت کرتا تھا اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتا تھا لیکن حقیقت میں وہ منافق تھا ۔جبکہ دوسری آیت حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ ثعلبی مفسر اہل سنت  نےاس آیت کی شان نزول کو لیلۃ المبیت قراردیا ہے ۔ ۶۔
معاویہ نے امام حسن علیہ السلام کے ساتھ کئے  گئےصلح پر عمل نہ کرتے ہوئے  یزید کو اپنا جانشین معین کیا اور لوگوں سے اس کے لئے بیعت لیا  اگرچہ دین اسلام کی کچھ ممتاز شخصیتوں  نے اس عمل کی مخالفت کی لیکن اس نے مخالفت کئے بغیر خوف و ہراس اور لالچ دے کر  اپنا مقصد حاصل کیا  ۔
ابن ابی الحدید معاویہ کی پرخوری کے متعلق لکھتا ہے کہ پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے ایک دفعہ اسے بلایا تو معلوم ہوا کہ وہ کھانا کھا رہا ہے ۔دوسری تیسری مرتبہ جب بھیجا تو یہی بتایا گیا جس پر آپ  ؐ نے فرمایا :(اللهم لا تشبع بطنه )خدایا اس کے پیٹ کو کبھی نہ بھرنا ۔اس بد دعا کا اثر یہ ہوا کہ جب کھاتے کھاتےتھک جاتا تھاتو کہتا  تھا(ارفعوا فوالله ما شبعت و لکن مللت و تعبت ) دستر خوان اٹھاو َ خدا کی قسم میں کھاتے کھاتے تھک گیاہوں ،مگر پیٹ ہے جو بھرنے کا نام نہیں لیتا۔اسی طرح امیر المومنین علیہ السلام پر سب و شتم کرنا اور اپنے عاملوں کو اس کاحکم دینا تاریخی مسلمات میں سے ہے جس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں اور منبر پر ایسے الفاظ کہے جاتے تھے جن کی زد میں اللہ اور رسولؐ بھی آجاتے تھے۔ چنانچہ ام المومنین  ام سلمہؓ نے معاویہ کو لکھا:(انکم تلعنون الله و رسوله علی منابرکم و ذلکم انکم تلعنون علی ابن ابی طالب و من احبه و انا اشهد ان الله احبه و رسوله )تم اپنے منبروں پر اللہ اور رسول پر لعنت بھیجتے ہو وہ یوں کہ تم علی ابن ابی طالب اور ان کو دوست رکھنے والوں پر لعنت بھیجتے ہو اور میں گواہی دیتی ہوں کہ علی کو اللہ اور اس کا رسول بھی دوست رکھتےتھے۔۷۔
معاویہ نے اعلان کیا تھا کہ جو شخص بھی اہل بیت علیہم السلام کی مدح میں کوئی حدیث بیان کرے گا اس کی جان ومال محفوظ نہیں ہیں اور جو شخص تمام اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف میں کوئی حدیث بیان کرے گا اسے بہت زیادہ انعام و اکرام دیا جائےگا اس نے حکم دیا تھا کہ سارے اسلامی ممالک میں منبروں سے علی علیہ السلام کو ناسزا کہا جائے  اور اس نے اپنے مددگاروں کی مدد سے بعض اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام کےشیعوں کو قتل کروایا اور ان میں سے بعض کے سروں کو نیزوں پر چڑھا کر شہروں میں پھروایا تھا وہ عام شیعوں کو جہاں کہیں بھی دیکھتا آزار و اذیت دیا کرتا تھا اور ان سے کہا جاتا تھا کہ وہ حضرت علی علیہ السلام کی پیروی سے باز رہیں اور جو اس حکم کو نہیں مانتا تھا اسے قتل کر دیاجاتا تھا ۔۸۔

حوالہ جات:
۱۔ یعقوبی، ج2، ص228؛ ابن عثم کوفی، ج4، ص343؛ طبری، ج5، ص303۔  الذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج3، ص291۔ الدینوری، کشّی، محمد بن عمر؛ رجال الکشی، ص48.
۲۔ تاریخ یقوبی، ج2 ،ص 127۔
۳۔الامامۃ وا لسیاسۃ ،ج 1، ص 155 – 157 ۔
۴۔ نہج البلاغہ ،خطبہ 57۔
۵۔ شرح نہج البلاغہ ، خطبہ 56،ج 1، ص 355۔
۶۔ بحار الانوار، ج 19،ص 38 ۔تفسیر نمونہ ،ج 2۔
۷۔عقد الفرید،ج3 ،ص 131، ترجمہ نہج البلاغہ علامہ مفتی جعفر حسین ،ص20۔
۸۔ شیعہ در اسلام ،علامہ طباطبائی، ص 40 -46

تبصرہ ارسال

You are replying to: .